جام اس کی نشاندہی نہ کرسکا کہ اس کے آبا واجداد نے گوادر کا قبضہ حاصل کیا تھا اور نہ ہی ان کے اس دعوے کی مکران میں کسی نے تصدیق کی۔اگر جام کی بات کو مانا جائے تو 1816تا 1818 کے درمیان کی بات ہوگی جب جام میر خان اوّل نے میر محمود خان سے گوادر کا مطالبہ کیا تھا ،مزکورہ مراسلے کے ملنے کے بعد ان کا انتقال ہوا تھا۔دوسری طرف جام میر خان گوادر پہ ان کے سپاہ کی قبضے کی خبر بیلہ پہنچنے سے پہلے وہ فوت ہوئے۔اگر گوادر جام خاندان کے زیر تسلط رہا ہوگا تو یہ 1818 سے 1830ہوسکتا ہے کیونکہ اسی عرصے میں جام میر خان دوئم اپنے دادی (بی بی نور ایلتازئی)کے سرپرستی میں تخت نشین ہوئے۔1830 کے بعد گوادر کی بیلہ کی زیر انتظام ہونے کے کوئی ثبوت نہیں۔اگر گوادر پہ بیلہ کی حاکمیت ہوتی تو حاجی عبدالنبی نے اس کا ذکر کیوں نہیں کیا ،کیونکہ وہ 1838-39 کے عرصے گوادر گئے تھے۔بلکہ انھوں نے گوادر کے آمدنی کا نصف گچکیوں کا ہے ،اپنے روداد میں اس کا ذکر کیا ہے۔
میانی پہ joasmi قزاقوں کا قبضہ 1808 میں ہوا تھا جس کا ذکر بمبئی ریکارڈ نمبر xv11 صفحہ نمبر 308 میں ہے۔جام کا اس واقعہ کا گوادر پہ قبضے کا ردعمل کہنا غلط ہے۔Joasmi قزاقوں کا مسقط سے کوئی واسطہ نہیں۔
اگر بیان کیے گئے بیانات درست ہیں تو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ کیا گوادر بارہ سال(1818 تا 1830) تک بیلہ کا ماتحت رہا ہے؟میں نے اس بارے نہایت باریکی سے معلومات اکھٹی کی ہیں کسی نے بھی جام کے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے۔کسی نے کبھی بھی جدگال قبیلے کی جانب سے گوادر پہ قبضے کا ذکر نہیں کی ہے۔ نہ مسقط سے پہلے اور نہ ہی مسقط کے بعد۔میں میجر شاور سے اتفاق کرتا ہوں کہ جام کے اس دعوے کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہئیے۔
فروری 1903،میں نے خان خدائیداد خان کو خط لکھ کر اورماڑہ کی حیثیت کا پوچھا۔انھوں وہی بات کی جو جام نے گوادر سے متعلق کی تھی۔یعنی جام گوادر کو اپنا گردانتا ہے جبکہ خان اورماڑہ کے متعلق یہی کچھ کہہ رہا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں
ایک تبصرہ شائع کریں