جنگ گوک پروش: ظہیر مشتاق

کوئی تبصرے نہیں



8 جنوری 1898 ۔
ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل بلوچستان کی طرف سے فارن سیکریٹری گورنمنٹ آف انڈیا کو ایک ٹیلی گرام موصول ہوا۔ یہ ٹیلی گرام نائب عبدالریم خان کی طرف سے بھیجا گیا تھا جس میں نائب نے لکھا کہ اسے اور شے قاسم کو ناظم مکران ادھوداس نے ناصر آباد بھیجا تاکہ رند اور اسکانیوں کے مابین ہونے والے مسائل کو حل کیا جاسکے لیکن اسے پتہ چلا کہ محراب خان نے ناظم مکران کو قید کرلیا اور ناظم نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ تربت کے قلعے کو پانچ تاریخ تک محراب خان کے حوالے کیا جائے ۔ نائب کریم خان نے آگے چل کر اے جی جی کو بتایا کہ وہ اور شئے عمر ،میر شیرمحمد کے ہمراہ تربت جارہے ہیں۔
9 جنوری 1898
میر محراب خان گچکی نے اپنے ایک مراسلے میں جو کہ اس نے سیف بن سعید والی گوادر کو لکھا ،اس میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ اللہ اور اس کے ولی غوث اعظم دستگر کی برکت سے میں نے امیر اور کیچ کے سرداران کے ساتھ مل کر پنج شنبہ چار شعبان 8 جنوری 1898 کی رات کو دیوان پر حملہ کردیا تاکہ مکران کے عوام کو انگریز اور اس کے دیوان کے ظلم وستم سے مکمل نجات مل سکے ۔ میں نے اللہ فضل و کرم سے دیوان کو اپنا قیدی بنالیا ۔ اس نے تربت کے قلات کو خالی کردیا اور گشتانگ کے قلعے کو ہم نے بزور طاقت اپنے قبضے میں لے لیا ،یہ دونوں قلعے اب میرے قبضے میں ہیں ۔ میں چائتا تھا کہ اس ملعون دیوان کو جہنم وصول کردوں لیکن مکران امیر اور سردار آڑے اے اور اس کی جان بخشی کی اپیل کی۔ اس کی حالت انتہائی بری ہے ۔ میر عبدالکریم نے پیشکش کی کہ وہ دیوان کو اپنے ساتھ لیکر قلاتک چلا جاے گا ۔ اپ کو معلوم ہونا چائیے کہ اگر میر عبدالکریم دیوان کو فرار ہونے میں مدد دے گا تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ اسے بچانے کی کوشش کرے گا تو میرے اور میر عبدلکریم کے درمیان اس بات پر جنگ ہوگی۔ میں چائتا ہوں کہ اپنے بھائی امام مسقط کو ان تمام حالات سے آگاہ کردوں ۔
ایک اور مراسلے میں جو گوادد کے مقامی اہل کار کے نام ہے ، اس میں میر محراب خان گچکی لکھتے ہیں لوگ دیوان ادھوداس کے ظلم سے تنگ آئے ہوے ہیں ۔ میں نے بار بار اس کو منع کرنے کی کوشش کی کہ سرکار کی طرف سے اس طرح کا کوئی حکم نہیں کہ غریبوں پر ظلم وستم روا رکھا جائے لیکن اس نے ایک نہ سنی ۔ لوگ دیک ادا کررہے تھے اور قانون کا احترام کررہے تھے ۔اس نے میرے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا اور صاف کہا کہ اس کو سرکار کی طرف سے احکامات ملے ہیں اور ضرورت پرے تو وہ طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ دیوان ان کے بات سننے کیلے تیار نہیں تو وہ یکجا ہوے اور انہوں نے اپس میں عہدو پیمان کیے اور مجھے اپنے جزبات سے آگاہ کیا ۔ کیچ دشت اور کلانچ کے عوام کیلے اور کوئی راہ باقی نہیں رہا ، ماسواے اللہ اور اس کے ولی پاک کی برکت کے۔۔
اسی دن اے جی جی نے حکومت ہند کت فارن سکریٹری کو بھیجے گئے اپنے ٹیلی گرام میں مکران کی صورت حال کا دیوان ادھوداس کے حوالے سے زکر کرتے ہوے لکھا ، پتہ چلا ہے کہ آفریدی ٹیم اور ایک برطانوی آفیسر چاہبار اور جاسک کے درمیان قتل ہوا ہے ۔ میر محراب خان گچکی سکنہ کوش قلات نے کوش قلاتی عوام کے ہمراہ تربت پر حملہ کردیا ہے۔ جس سے منشی بولارام جو کہ لیوی دستے کا سوار تھا ہلاک ہوا ایک اور منشی اس حملے میں زخمی ہوے ۔ باغیوں نے تربت اور گشتاک کے قلعوں پر قبضہ کرلیا ۔ انہوں نے چھ ہزار روپے کے قریب رقم پانچ سنائیڈر بندوقیں اور گولیوں کی پانچ پیٹیوں کےعلاوہ سروے پارٹی کے راشن بھی لوٹ لی ۔ نائم شے قاسم ،میر شیر محمد جو کہ ناصر آباد قلعے میں تھے انہوں نے تربت قلعے سے لوگوں کو نکال کر اپنے ساتھ کلاتک میرے پاس لائے۔ ہم یہاں محفوظ ہیں ۔ ناصر آباد کے قلعے میں ہمارا قبضہ ہے ۔ اس کے علاوہ سردار شئے عمر نائب شئے قاسم ،شیر محمد ،محمد خان ،مند کے رند سردار ، نودز کے بہرام خان بھی ہمارے ساتھ ہیں ۔ برائے مہربانی تو پہاڑی توپوں اور کچھ پیادہ فوج جلدی سے بھیج دیں جس کے متعلق ان سرداروں کا خیال ہے کہ محراب خان کے بغاوت فرد کرنے میں کافی ثابت ہوگا میں نے سامی کے محمد حسن کو لکھا کہ وہ سروے پارٹی کا خیال رکھے ۔ سروے پارٹی کے پانچ افراد جو تربت میں تھے ان کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا لیکن ہم پر امید ہیں کہ وہ محفوظ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مقامی فوج کی تین کمپنیاں دو توپخانوں کے ساتھ پسنی یا گوادر بھیجوا دیا جائے۔ توپ ضروری ہیں کیونکہ اس کے بغیر قلعوں کو مسمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح کی صورت حال خطرہ کا پیش خیمہ ہے کیونکہ اس کی لپیٹ میں مزید علاقے آسکتے ییں ۔
10 جنوری 1898
اپنے ایک ٹیلی گرام میں اے جی جی بلوچستان ،انڈین سکریٹری کو تحریر کرتے ہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ مکران کے بغاوت کو فرد کرنے کی خاطر ریاست قلات کی فوج مکران لیوی کور کو استعمال میں لایا جاے لیکن یہ سردست ناممکن ہے کیونکہ شتر دستہ انٹوں پر مشتمل دستہ ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے ، اس کو ابھی نہیں بھیجا جس سکتا ۔ قلات کمپنی فوج بھی مکران میں موجود ہے لیکن اس بیشتر سپائی چھٹیوں پر گئے ہوے ہیں۔ اس صورت حال میں میرا خیال ہے کہ پولیٹکل ایجنٹ کو بغیر کسی حفاظتی دستے کے مکران نہیں بھیجا جا سکتا۔ محراب خان کی بغاوت کی وجہ اس کے بھائی سردار شئے عمر کے ساتھ زمینی تنازعہ تھا جو کہ عرصے سے التواء میں پڑا تھا اور اس معاملے میں وہ ناظم سے کافی ناراض تھا، میں نے اسے دورہ پنجگور میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکا اور اگر حالات میں بہتری آئی تو پولیٹیکل ایجنٹ کی مدد سے اس مسئلے کو حل کی راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ درییں اثناء میں نے بلوچ خان نوشیروانی کو احکامات جاری کئے کہ وہ ناظم کی مدد کرے اور محراب خان کے پاس جاکر اگر ممکن ہوا تو اس کو گوادر لے آئے ۔ کیونکہ بلوچ خان نوشیروانی مکران میں واحد شخص ہے جو یہ کرسکتا ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ محراب خان کی مدد کرے ۔
اسی تاریخ کو ایک اور مراسلے میں سے جی جی لکھتے ییں گوادر کی سنڈویوروپین ٹیلی گراف لائن کے جمعدار شاہ سوار سے ایک ٹیلی گرام کہ پسنی کا نائب ابھی گوادر آیا تھا اور اس نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے میر محراب خان کے کہنے پر پسنی کے ٹیلی گراف لائن کے تار کاٹ دئیے اور انہوں نے اسے لوٹا ۔ انہوں نے جمعدار اور لائن کی حفاظت لوگوں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوے ۔پسنی کے نائب لوگوں کو محراب خان کے خلاف جنگ پر آمادہ نہ کرسکا ۔ نائب کو ان لوگوں نے لوٹا اور زخمی کردیا۔ ٹیلی گراف تاروں کو دوجگہوں سے کاٹ گیا ہے۔
11 جنوری 1898
ایک اور ٹیلی گرام میں اے جی جی بلوچستان ،فسرن سکریٹری کو تحریر کرتے ہیں مقامی اہلکار نے اطلاع دی ہے کہ مکران کے تمام سردار اور عوام علاوہ شئے عمر ،نائب عبدالکریم گچکی کے میر محراب خان کے ساتھ ہیں۔ محراب خان نے پسنی پر قبضہ کرلیا ۔ انہوں نے پسنی اورکلمت کے نائبوں کو لوٹا اور دونوں اپنے جان بچانے کی خاطر گوادر میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ۔ محراب خان کے کوگوں نے ماڑہ لائن کو بھی کاٹ دیا اور اسے بنانے نہیں دے رہے ہیں میں نسظم کے ٹیلی گرام کو علیحدہ سے بھیج رہا یوں پتہ نہیں ملے گا بھی کہ نہیں۔ پتہ چلا ہے کہ گوادر کے مغرب میں ٹیلی گراف تاروں کو کاٹ دیا گیا ہے اور مند کے رند بھی حکومت کیخلاف اٹھ کھڑے ہوگئے ہیں اور وہ دشت کی جسنب بڑھ رہے ہیں ۔ اگر یہ سب کچھ ہوا تو گوادر کا علاقہ باقی دنیا سے ٹیلی گراف کے زریعے کٹ جائے گا۔
آگے چل کر اے جی جی اس ٹیلی گرام پر تبصرہ کرتے ہوے لکھتے ییں کہ گوادر کی صورتحال میں مبالغہ آرائی کی امیزش ہے اور ناظم ناصر آباد میں خان قلات کے سپائیوں کے ساتھ محفوظ ہیں ۔ مجھے برن اور اس کے سروے پارٹی کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اگر لارنس یا کوئی گن بوٹ چاہبار پر لنگر انداز ہے تو ان میں سے ایک کو پسنی بھیج دیا جاے، اس سے بڑا اچھا اثر پڑے گا۔ پسنی کی لوٹ مار اور تاروں کی چھیڑخانی میں کچھ شرپسندوں کا ہاتھ ہے ۔ میں نے نوروز خان نوشیروانی والی خاران کے لڑکے کو حکم دیا ہے کہ پچاس سواروں کے ساتھ خاران سے تربت آکر ناظم کی مدد کرے ۔ سر نوروز خود اس وقت سیستان میں ہیں۔ ایک اور مراسلے میں اے جی جی فارن سکریٹری کو لکھتے ہیں کہ برن اور ماڑہ پہنچ چکا ہے ۔ سردار خان نائب پسنی جو کہ اپنی جان بچا کر گوادر پہنچ گیا اس نے کہا کہ اورماڑہ کے ٹیلی گراف اہلکاروں کو بتائیں کے ہوشیار رہیں کیونکہ محراب خان کے کوگ اورماڑہ پر حملہ کرنے والے ہیں ۔ سروے پارٹی کو مرگی چمپور کے قریب کوٹ لیا گیا۔ اس حملے میں کچھ لوگ زخمی ہوے اور کچھ مارے گئے ہیں ۔ کیپٹن برن بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا ہے اور اورماڑہ پہنچ گیا۔ لیفٹینیٹ ٹرنر کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جو کہ بلور سے دس تاریخ کو روانہ کیا گیا تھا کہ وہ بھی پہنچ رہے ہیں۔
12 جنوری 1898
اے جی جی بلوچستان نے فارن آفس انڈیا کو اپنے ایک ٹیلی گرام میں مکران کے بغاوت کے سلسلے میں تازہ ترین صورت حال سے اگاہ کرتے ہوے مطلع کیا کہ کراچی کے جنرل افیسر کمانڈنگ نے برن کے ٹیلی گرام کے جواب میں تیسویں بلوچ کے زریعے دو سوپچاس بندوقیں اورماڑہ بھیج دییے وہ کل تک پہنچ جائیں گے ۔ جام آف لسبیلہ اور اس کے وزیر جو کراچی میں ہیں بیلہ جارہے رہے ہیں تاکہ معاملے کو سرد کرسکیں اور انگریزی لشکر کیلے ضروری سازوسامان مہیا کرنے کا بندوبست کریں۔ میرے خیال میں اس مسئلے پر سرعت سے عمل درآمد کرکے اس کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ سنگریزی لشکر کو کسی قسم کی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گااور رستم اور محراب عین ممکن ہے کہ فارس میں بھاگ گئے ہونگے۔ برن کے ٹیلی گرام کے باوجود میرا نہیں خیال کہ بلوچ خان نوشیروانی اس معاملے میں ملوث ہیں ۔ میں نے اس کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ رستم اور محراب خان کی سرکوبی کیلے لشکر کا ساتھ دیں۔ اس کے علاوہ میں نے نوروز خان نوشیروانی کو حکم دیا کہ وہ پچاس پچاس سوار دستوں کو کولواہ اور تربت بھیج دیں ۔ جلد ہی محراب کا کھیل اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے ۔
ایک اور مراسلے میں اے جی جی تحریر کرتے ہیں کہ لیفٹینٹ ٹرنر غلام جان اف بلور کے ساتھ اورماڑہ پہنچ گئے ہیں ۔ گوادر سے ناظم کی جانب سے ٹیلی گرام موصول ہوا کہ محراب خان اپنے آدمیوں کو دشت بھیجا تاکہ وہ ٹیلی گراف لائن کے تاروں کو کاٹ دیں۔
13 جنوری 1898
مکران سے ہزاروں میل دور لندن کے پال مال گزٹ میں مکران کے بغاوت کی خبر شہ سرخیوں میں شائع ہوئی جس میں اس حملے کی متعلق انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا اور اس واقعے سے متعلق ابتدائی رپورٹوں کی بنیاد پر یہ خبر بنائی گئی تھی ۔
14 جنوری 1898
اے جی جی کی طرف سے ٹیلی گرام ، ابھی تک مکران کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے بلکہ وہ خراب سے خراب تر ہوت جارہے ہیں۔ انگریزی لشکر کو راستے کی مشکلات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ چونکہ مکران کاسارا علاقہ اس وقت بغاوت کی لپیٹ میں لہزاکسی قسم کی کوئی سواری میسر نہیں ہے ۔
14 جنوری 1898
لندن اور انگلینڈ کے دوسرے شہروں سے نکلنے والے اخبارات میں مکران کے بغاوت کو تفصیل سے کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں خبررساں ایجنسی رائٹر کے حوالے سے مکران کی خبروں و انگریزی دنیا کے مختلف اخبارات میں جگہ دی گئی تھی
15 جنوری 1898
اے جی جی لکھتا ہے کہ اخری خبریں آنے تک سارے گچکی سردار ماسواے محراب خان کے سارے ناظم اور انگریزی حکومت کے ساتھ ہیں۔
19 جنوری 1898
بلوچ خان نوشیروانی اے جی جی کے نام اپنے خط میں شکایت کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ جب میں پچھلی دفعہ سردار اللہ یار خان کے ساتھ اپ کے پاس کوئٹہ دربار میں شریک ہوا تو آپ نے بات چیت کے دوران اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ آپ میرے بھائی میر شہداد گچکی کو رہا کریں گے اور اس کے ساتھ آپ مجھے سند میں لکھ کر دیں گے کہ مجھے بٹ کا قلعہ واپس دیں گے۔ نہ شہداد رہا ہوے اور نہ ہی جب میں واپس کیچ پہنچا تو بٹ کا قلعہ مجھے واپس ملا میں یہ نہیں کہتا کہ اپ نے اپنے وعدے پورا نہیں کیا یا ناظم نے ان پر عمل در آمد نہیں کروایا بلکہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سند پر لکھ گئے تمام مندرجات پر کھبی بھی عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہں کی گئی۔اسی لئے میں اپنے محمد عمر خان کو اپ کے پاس بھیج رہا ہوں تاکہ وہ اپ کو بتاے کہ میں پھر کھبی بھی کوئٹہ نہیں اونگا کیونکہ آپ نے خود وعدہ فراموشی کہ ہے۔ ان دنوں باشندگان کیچ ،بلیدہ ،کولواہ اور پنجگور وغیرہ ناظم کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوگئے ہیں اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔ مجھے خود ایک بلوچ ہونے کے ناطے اور کوئی راہ نظر نہیں آرہا ماسواے ان لوگوں کے ساتھ ان کے جدوجہد میں شریک ہوجاوں۔ میں نے کچھ علاقوں میں کوٹ مار بھی کی ہے جس میں محراب خان گچکی کا جوئی ہاتھ نہیں ہے ۔ میں یہ خط اپ کو اس لیے تحریر کر رہا ہوں تاکہ اپ کو ناظم کے ظلم وستم سے اگاہ کروں۔
20 جنوری 1898
ایک اور خط میں جو کہ میر محراب گچکی ،بلوچ خان نوشیروانی ،شکراللہ گچکی آف تمپ ، محراب خان نوشیروانی ،ملا خداد معتبر تربت ،کہدہ نبی بخش معتبر دشت ،ملا مبارک معتبر کلانچ ،میر اشرف رند ،ملا غلام معتبر گشتانگ ، میر دوست محمد معتبر کوش کلات اور ملا نور محمد معتبر نگور نے اے جی جی کے نام اپنے مشترکہ خط میں لکھا ہم ساکنان کیچ اپ سے مودبانہ التماس کرتے ہیں کہ ہم پہلے اپنی زندگیوں سے خان آف قلات کے ظلم وستم کی وجہ سے تنگ ائے ہوے تھے اور دن رات بارگاہ خداوند سے دعا کرتے تھے کہ ہمارا ملک برطانیہ کے زیر سایہ اے جس سے ہم خان اف قلات کے ظلم سے نجات ملے ۔جب ہمارا ملک سرکار دیوان اڈھوداس کے ہاتھ میں ایا تو اڈھوداس سردار شے عمر اور عبدالکریم کے مشہوروں پر عمل کرنے لگے انہوں نے دن رات سواے ظلم کے اور کوئی کام نہیں کیا ۔سرکار نے تمام پیداوار پر حکومت کا حصہ دہک مقرر کردیا تھا۔ اگرچہ ہم اپنے آباواجداد کے زمانے سے دہک ادا نہیں کررہے تھے ۔ اس کے باوجود ہم نے اپنا ملک نہیں چھوڈا نہ سرکار کے حکم کی عدولی کی بلکہ ہم نے طے کیا کہ ہم اس ٹیکس کو ادا کریں گے ۔ لیکن دہک لینے کے بجاے ناظم نے ہیداوار کے دو حصے اپنے لیے اور ایک حصہ ہمارے لیے چھوڑا اور وہ بھی پیداوار کے بجاے نقدی کے شکل میں۔ اس نے اس ضمن میں کھبی بھی برطانوی قانون اور روایتوں پر عمل نہیں کیا ۔ ہم سب ناظم کے کرتوتوں سے تنگ آگئے ہیں اس کے علاوہ ہمیں کوئی اور راہ نہ سوجھی اور ہم نے حلف اٹھایا کہ ہم ایک ہو دیوان اڈھوداس کو تربت سے نکال باہر کریں گے اور ہم نے کر دکھایا اور تربت اور گشتانگ کے قلعے پر قبضہ کرلیا۔
21 جنوری 1898
یعقوب خان نوشیروانی نے اپنے ایک خط میں اے جی جی کو لکھتے ہیں کہ مجھے اپ کا خط ملا اور اس کے تعمیل میں پچاس سواروں کے ساتھ ناظم کی مدد کیلے پنجگور جارہا ہوں تمام گھوڑوں اور مال برداری کے جانوروں بشمول سپاہی دستے کے اپنے والد سر نوروز خان نوشیروانی کی سرکردگی میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں ہیاں خاران میں ہم نے اپنا کوئی سپائی پیچھے نہیں چھوڈا ۔ میں نے اگرچہ اپنے کوردار سکنہ پنجگور کو لکھا کہ تیس سے چالیس افراد ناظم کی مدد کے لیے بھیجے۔ جب کیچ میں برطانوی یا خان قلات کے سپاہی ائیں گے تو میں خود سات یا اٹھ سپائیوں کے ساتھ لے کر ان کے ساتھ شریک ہونگا۔ آپ کو علم ہے کہ اج کل ہمارے ملک میں انتہائی شدید قحط سالی ائی ہے لیکن پھر بھی میں نے اپنے سپائیوں سے کہا کہ وہ پنجگور کے کارداد کے پاس جسئیں اور اس کے مدد کریں۔
27 جنوری 1898
اسٹیمر پیٹرک اسٹیورٹ کراچی سے پسنی پہنچ گیا اور اس کے زریعے توپیں پسنی میں لائی گئیں ہیں اور کرنک مین کے مزید تازہ دم دستے بھی بھیج دیے گیے ہیں۔ سروے پارٹی کے چار افراد اور ماڑہ پہنچ گئے اور مزید کے آنے کی توقع ہے ۔
31 جنوری 1898
برسٹل مرکری اینڈ ڈیلی رائٹرز کے حوالے سے لکھتے ہیں مکران کے ناظم اس بات سے بلکل لاعلم ہیں کہ کرنل مین اس کی حفاظت کیلے چل پڑے ہیں لہزا اس کو ہر حال میں قلعے میں رئنا چائیے ۔ مخبروں نے خبر دی ہے کہ بلوچ خان پسنی کی جانب چل پڑے ییں تاکہ وہ کرنل مین کو راستے میں ہی روک دیں ، جنگ اب ناگریز ہے ۔
دوسری جانب بلوچ خان اور محراب خان کو کرنل ین کی سرگرمیوں کا پتہ چلا تو وہ سمجھ گئے تھے کہ انہوں نے جو خطوط اے جی جی اور سنگریز سرکار کے دیگر اہلکاروں کو لکھے تھے ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا اور اب جنگ ناگریز ہے رو انہوں نے اپنے حامیوں کو جمع کرنا شروع کیا ۔ ان میں تمپ سے میر مراد اور میر شکراللہ گچکی ،مند سے میر حیاتان رند اپنے لشکروں کے ساتھ ان سے آکر مل گئے ۔ بلیدہ سے میر محراب خان نوشیروانی اور مہیم خان نوشیروانی اور کلانچ سے ملا مبارک اور حاجی مراد واڈیلہ بھی اپنے ادمیوں کے ساتھ میر محراب خان گچکی کے امداد کو پہنچ گئے ۔ مکران کے سن سرکردہ لوگوں کی مدد سے میر محراب خان چند دنوں میں ایک ہزار نفری پر مشتمل لشکر تیار کرنے میں کامیاب ہوے
جب مکران کے ثریت پسندوں کو کرنل میں کی سرکردگی میں انگریزوں کی فوج کی پسنی آمد اور تربت کی طرف پیش قدمی کی اطلاح ملی تو انہوں نے گوک پروش کی مقام پہ مورچہ بندی کی اور انگریزی فوج کی آمد کا انتظار کیا۔ چونکہ مکران کے یہ جانباز ایک طرف جدید جنگی صلاحتوں سے ناواقف تھے تو دوسری جانب ان کے پاس جدید اسلحہ کی بھی کمی تھی ۔اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوے بلوچ خان نوشیروانی نے تجویز دی کہ بلوچی لشکر کو کئی چپاوں دستوں میں تقسیم کرکے چھپ چھپ کر دشمن پر حملے کئے جائیں اور جب موقع ملے تو دشمن پر شب خون مارا جاے۔ بلوچ خان کے اس تجویز سے محراب خان گچکی اور دوسرے معتبرین نے نہیں مانا اور میدان جنگ میں دشمن سے دو بدو لڑنے کا فیصلہ کیا اور یہی غلطی بلوچوں کی شکست کا سبب بنا۔
کرنل مین کے ساتھ پولیٹیکل ایجنٹ قلات کے علاوہ ناکس بھی ساتھ تھا ۔انہیں پسنی سے بہ راہ راستہ تربت کسی خاص قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ بلا کسی رکاوٹ کے تنگ اور پیچ دریچ راستہ کور کی تنگ گزرگاوں سے گزرنے میں کامیاب ہوے ۔ جلد ہی انہیں پہاڑیوں کے چوٹیوں پر بلوچ لشکر کے افراد نظر آے ۔ انگریزی لشکر کو بلوچوں کی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوے حملہ ترتیب دینے میں کسی خاص قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا جب انگریز اور بلوچ لشکر کے درمیان نو سو گز کا فاصلہ رہ گیا تو بلوچ لشکر نے دیسی ساخت کے ہتھیاروں سے دور جدید کی اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ اور کئی گنا طاقتور دشمن پر حملہ شروع کردیا ۔ اس وقت صبح کے آٹھ بج رہے تھے ۔ انگریزی توپخانہ نے بسئیں طرف کی پہاڑی چوٹی پر قبضہ کرکے بلوچ لشکر پر گولہ باری شروع کردی اور اس کے ساتھ ہی دو کمپنیوں نے دائیں اور بائیں سے بلوچ مورچوں کو گھیرلیا۔توپیں مزید قریب لائی گئیں اور گولہ باری میں شدت آگی ۔ اس کا اثر بہت جلد ظسہر ہوا بلوچ لشکر کا دایاں بازو ٹوٹ کر پچھلے مورچوں سے جا ملا۔ اس موقع پر پیادہ فوج کو دائیں طرف سے حملہ کا حکم ہوا اور فوج کے اگلے دستے آگے بڑھتے رہے ہیاں تک کہ انگریزی فوج اور بلوچ لشکر کے درمیان تین سو گز کا فاصلہ رہ گیا ۔ اس موقع پر انگریزوں نے زبردست شیلنگ کی جس سے افراتفری مچ گئی اور آخر کار بلوچ مورچہ چھوڑ کر منتشر ہوگے۔ محراب خان گچکی بھی اپنے ساتھیوں سمیت میدان جنگ سے پسپا ہوے لیکن عین اس وقت میر بلوچ خان نوشیروانی اپنے مٹھی غازیوں کے ساتھ نمودار ہوے اور انہوں نے اپنے بندوقیں پھینک کر تلواریں نکال لیں اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوے دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔ اس موقع پر انگریزوں نے ان پر زبردست شیلنگ کی اور ایک ایک کرکے سارے غازی جام شہادت نوش کرگئے ۔میر بلوچ خان چند قدم آگے بڑھ ہی سکا تھا کہ ایک گولی اس کے سینے پر اکر لگی اور یہ عظیم رہنما بھی شہید ہوگئے ۔ گوک پروش کی لڑائی ڈو گھنٹے تک پوری شدت سے جاری رہی۔ اس میں بلوچوں کے سرکردہ رہنما شہید ہوے میر بلوچ خان نوشیروانی ،گل محمد نوشیروانی ساکنان بلیدہ ، میر شکراللہ گچکی سکنہ تمپ اور میر حیاتان رند سکنہ مند شامل ہیں ۔ گوک پروش میں ڈھائی سو بلوچ شہید ہوے برطانوی فوج کے تین سپائی بلاک ہوے .

کوئی تبصرے نہیں

ایک تبصرہ شائع کریں