دنیا میں تہواروں کا وجود ایک فطرتی حصہ ہے۔یہ ہر مذہب ،ملک اور علاقوں میں مختلف نام اور مختلف انداز سے مناٸے جاتے ہیں۔ان تہواروں کی مختلف اقسام ہیں۔ان میں سے بعض شروع میں تو صحیح ہوتے ہیں لیکن بعد میں زمانے کی تبدیلیوں سے وہ بھی اپنی اصلیت کھو بیٹھتی ہیں۔بعض ہر زمانے میں اپنی اصلیت پر قاٸم رہتے ہیں ۔ بعض شروع ہی سے برے ہیں۔ان میں سے ایک تہوار ”ویلنٹاٸن ڈے“ ہے۔اس کا نام سن کر ہر قاری کے ذہن میں”کیا،کب،کیسےاور کیوں“ جیسے سوالات گردش کرنے لگتے ہیں۔تو آٸیے! اس کا تشفی جواب ملاحظہ فرماٸیں۔
اس کے بارے مختلف قسم کی روایتیں ہیں ۔لیکن یہاں چند حقاٸق پر نظر ڈالتے ہیں۔ایک تحقیقی ادارہ "Britannica Encyclopedia" نے یہ رپورٹ پیش کی ہے کہ: ”ویلنٹاٸن کا اصل لفظ "Valentine Saint " ہے ۔"Saint " لاطینی زبان میں ”بزرگ“ کو کہتے ہیں۔عیساٸیوں کی کیتھولک مذہب کا عقیدہ ہے کہ ہر سال 14 چودی فروری کو ویلنٹاٸن نامی پادریوں کی روحیں دنیا میں اترتی ہیں۔اور وہ(کیتھولک فرقہ) اس دن اپنے تما تر عبادات و معمولات انہیں کے نام کرتے ہیں“۔
لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں جو اصل کہانی سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ایک ویلنٹاٸن نامی عیساٸی راہب کو ایک راہبہ سے عشق کی لت لگ گٸی۔چونکہ عیساٸی مذہب میں راہب اور راہبہ کی شادی ناجاٸز اور گناہ تھا۔اس وجہ سے ویلنٹاٸن نے جنسی ملاپ کی خاطر بہانہ بناکر راہبہ سے کہنے لگا کہ کل رات مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری کے روز اگر راہب اور راہبہ جنسی خواہش کو پورا کریں تو ان کو گناہ نہیں ملے گا۔راہبہ نے اس کا یہ خواہش پورا کرنے میں اس کا ساتھ دیا ۔پھر حکومت وقت نے ان کو اس جرم کے پاداش میں سزاٸے موت دی۔چونکہ ویلنٹاٸن ان کا مذہبی پیشوا تھا ۔اس لیے بعد میں عیساٸیوں نے ان کی یاد میں ہر سال 14 فروری کے روز ”ویلنٹاٸن ڈے“ مختلف طریقوں سے منانے لگے۔اس تہوار کاابتدا روم سے ہوا۔بعد میں عیساٸیوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ رسم ختم ہوچکا تھا ۔لیکن چودھویں صدی عیسوی میں "Henry Ansgar Kelly" نامی عیساٸی اسکالر نے اپنی کتاب" Chaucer and the Cult of Saint Valentine" میں عشق و محبت والی کہانیاں بھر،بھر کر اس رسم کو دوبارہ زندہ کیا۔اٹھارھویں صدی میں فرانس اور انگلینڈ میں سرکاری سر پرستی میں اسے پروان چھڑایا گیا اور یوں آہستہ،آہستہ پوری دنیا میں ہر مرعوب و مغرب پرست لوگ اسے منانے لگے۔
غیور مسلمانو! نہ ہمیں شادی سے روکا گیا ہے اور نہ ہم عیساٸی ہیں۔تو پھر ہم ویلنٹاٸن ڈے کیوں مناتے پھریں؟وہ کم عقل،کم ظرف ہی ہوگا جو اسلام کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو گلے سے لگایا یوتا ہے۔اسلام کی وہ کون سی چیز ہے جسے صحیح اور ٹھیک طریقہ سے اپنانے میں ہم زوال کی طرف گٸے ہیں؟آج مغرب حجاب،مسواک اور نماز وغیرہ پر تحقیقات کر کے ان کے فواٸد بتا رہے ہیں اور وہ خود داٸرہ اسلام میں داخل ہو رپے ہیں اور مغربی تہذیب پے لعنت بھیج کر ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نٸی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
کوئی تبصرے نہیں
ایک تبصرہ شائع کریں